فارسی زبان سیکھنے کے شوق میں ہم اس کلاس روم تک پہنچ گئے جہاں بشیر محمدی صاحب پڑھایا کرتے تھے … لبوں پر مسکراہٹ رہتی تھی مگر اپنے درس کے معاملے میں بے حد سنجیدہ رہتے تھے…کلاس کی ابتداء سعدی یا حافظ کے کسی پرمعنی کلام سے ہوا کرتی تھی….اور اس کلام پر ڈسکشن کے ساتھ …زبان کی مشق اور ذہنی وسعت، دونوں شکار ہوجایا کرتے تھے …استاد کے مخلص ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی خدمات محض کلاس کے کمرے تک محدود نہیں تھیں…اس کے علاوہ بھی آپ ان سے وقت لیکر انفرادی نشست کر سکتے تھے…بس سیکھنے کی لگن ہونی چاہیئے ، پھر استاد بشیر آپ کے ساتھ ہیں…اور کلاس کی کوئی حدود نہیں ہیں
جن دنوں ہم نے فارسی پڑھنا شروع کی تھی …ان دنوں بھی شہر کے حالات اکثر خراب ہی رہا کرتے تھے … مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بار ایسے ہی کسی روز ہم کلاس سے غیر حاضر رہے….تو اگلی کلاس میں انہوں نے باز پرس کی…ہم نے جواب دیا ‘سر شہر کے حالات ٹھیک نہیں تھے’ …اور جہاں تک یاد پڑتا ہے اس روز بھی کسی بےگناہ کو شہید کیا گیا تھا جس کا ذکر استاد سے بھی ہوا … استاد بشیر نے یہ سن کر انتہائی اطمینان کے ساتھ جواب دیا….’دیکھیئے….مولا علی ع کا قول ہے … ‘انسان کی زندگی کی سب سے بڑی محافظ اس کی موت ہے’ یعنی آپ کا وقت پورا ہونے سے پہلے آپ کو موت نہیں آسکتی….اس کے بعد کہنے لگے….آپ حضرات ایک نیک کام کی خاطر یعنی علم کے حصول کے لیئے یہاں آتے ہیں….تو گھبرانے کی کیا بات ہے؟
واقعی کس قدر یقین تھا انہیں مولا ع کے اس قول پر…کہ جتنی سانسیں لکھی ہیں اتنی ہی لینا ہیں….بہرحال آج صبح انکوائری آفس کے قریب دو بھائیوں کی شہادت کی اطلاع ملی …اور کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ ہمارے عزیز استاد بشیر کو ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ شہید کر دیا گیا ہے …اور میتیں باب العلم امام بارگاہ میں رکھی ہیں ….جنہیں بعد میں اسکردو بھیجا جائے گا
خبر سن کر استاد کا ہنستا مسکراتا چہرہ اور ان کی باتیں ذہن میں گھومنے لگیں …خاص کر مولا ع کا وہ قول جو انہوں نے کلاس میں سنایا تھا..کہ ..انسان کی سب سے بڑی محافظ اس کی موت ہے
آج مادر وطن ایک اور شفیق استاد اور مخلص دوست سے محروم ہوگئی…جس کے دامن میں اس ملک کے لیئے سواۓ خیر کے اور کچھ نہیں تھا…ہم شاید ان بد نصیب اقوام میں سے ہیں جنہیں اپنے نقصانات کی نوعیت کا اندازہ بھی نہیں ہے … اچھے اور مخلص افراد تو معاشروں کی روح کا درجہ رکھتے ہیں ….کل رات زائرین پر حملہ کیا گیا …اور کراچی ائیر پورٹ پر بھی ….کل ملا کے پچاس کے لگ بھگ جانیں ضائع ہوئیں….خدا جانے انہیں بچانا کس کی ذمہ داری تھی جس نے ادا نہیں کی …خدا جانے دہشت گردی کے یہ فصل جس نے لگائی تھی اس کا کیا انجام ہونا چاہیئے .. خدا جانے اس کا حل کیا ہے …عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے
جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ….اسی رفتار سے اگر ہم استاد بشیر جیسے عظیم انسانوں سے محروم ہوتے رہے …اور انہیں محض ایک ‘مسلک’ کا نقصان سمجھتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم مکمل طور پر ایک ‘مردہ’ قوم بن جائیں گے …اور پھر……. بس…. آگے لکھنے سے بھی قلم کانپتا ہے
التماس سورہ فاتحہ شہید استاد بشیر اور ان کے برادر عزیز کے لیئے-
June – 2014