لبّیک…. یا حسین ع
خدا سے ملنے کا جی ہے چاہے
ہمیشہ جینے کا جی ہے چاہے
حسینی ‘ھل من’ سے آؤ اپنی
صداۓ ‘لبّیک’… کو ملا لیں
سنا ہے باہیں کھلی ہیں اسکی
‘جلے’ تو پھر… خوب ‘روشنی’ ہو
حسینی خیموں کے درمیاں ہی
ہم اپنا خیمہ… ابھی لگا لیں
سنا ہے .. مقتل کی گرمیوں میں
جو ‘پیاس’ پیتا ہے ساتھ اس کے
نجات پاتا ہے ‘تشنگی’ سے
چلو کہ اب …تشنگی ..مٹا لیں
سنا ہے.. سنگ اس کے تیر کھاؤ
تو خوں کی بوندیں کریں ..چراغاں
چلو…کہ …تیروں کی آندھیوں میں
ہم آپ اپنے …بدن …بچھا لیں
سنا ہے کہ…اس کی کربلا میں
نماز ..نیزوں میں دے گواہی
چلو…’امامت’ وہ کر رہا ہے
ہر اک ‘قضا’ کو ..’ادا’ بنا لیں
سنا ہے..اس کے ہے سنگ ہمیشہ
چلا دے جو بھی …گلہ چھری پر
یقینی ہے نوکری کا موقع
چلو….چھری پر گلہ چلا لیں!
سنا ہے کہ سب ہی وار دے گا
وہ اپنا اک شیر خوار دے گا
چلو..کہ اب تیر ..روکنا ہے
ہم اپنے بچوں کو خود اٹھا لیں
سنا ہے کہ اس کی کربلا کو
امان ملنی ہے چادروں سے
پکارو اپنے حرم کو جلدی
لٹانے کو…چادریں…سنبھالیں
سنی سنائی کہاں ہے آصف
ہر ایک لب پہ ہے نام اس کا
چلو کہ خود کو…’مٹا’ کے ‘اس’ میں
ہم اپنے ‘نام و نشان’ …پا لیں
طالب دعا: آصف رضوی