خزاں

خزاں

چمن تو سارے اجڑ چکے هیں
زمیں پہ بکهرے یہ ذرد پتے
رمق سے عاری هیں زندگی کی

شجر” سے چوں کہ بچهڑ چکے هیں

نیا تجربه نهہیں ہے کوئی
یہ بارها پہلے لڑ چکے ہیں
دهواں دماغوں میں بهر چکا هے
جو اس طرح ضد پہ اڑ چکے ہیں
هزار فتنوں میں پڑ چکے ہیں


کوئ تو ان کو بتاءے جا کر
رہو گے باقی جو اس روش پر
.. خزاں کچه ایسی عجیب هو گی
 !!!بہار پهر نه نصیب ہو گی

2013 – سالنامہ

2013 – سالنامہ

لہو لہو سی تھی کچھ  ایسی ابتداء اس کی
کہ اک دھماکے سے اجڑے تھے سو گھروں کے چراغ

پھر اگلے ماہ بھی وہی واقعہ .. شہر بھی وہی
بلا کی ٹھنڈ میں سنگ اپنے اپنے ان شہیدوں کے
نہ جانے بیٹھی رہیں کب تلک وو مآں  بہنیں
وہ خون_ بیگناہ …دیکھی تھی جس کی طاقت بھی
ہر ایک گوشے میں نکلے تھے اہل دل باہر
یتیم بچوں کی ‘موہوم’ سوگواری پر

پھر ایک روز شہادت تھی سبط جعفر کی
یتیم جس سے ہوئے تھے نجانے کتنے گھر

پھر اک دھماکہ تھا عبّاس ٹاؤن کا جس میں
پچاس گھر کے چراغوں میں روشنی نہ رہی
ہے اب بھی یاد مجھے ایک گھر ک ملبے میں
دہائی دیتی تھی تصویر_قائد اعظم

پھر اس کے بعد بھی ایسے ہی واقعے پیہم
نہ رکے ..ہوتے رہے .. اور چراغ بجھتے رہے
کبھی کلیسا تو مسجد ، کبھی عزا خانے
وطن میں مردہ ضمیروں کی بھینٹ چڑھتے رہے

وہی جنازوں کا آنا لہو لہو ہو کر
وہ اہل خانہ کے نالے بھی ….اپنا سب کھو کر

دفن بھی ہو ہی گئی …روح_ وطن مٹی میں
میں نئے سال کا سوچوں تو کس طرح سوچوں

مجھے تو آتی ہے …اس سے بھی خوں کی بو جیسے
یہ سالنامہ ہے …سن دو ہزار تیرہ کا

آصف رضوی

January 1 – 2014

کاش…..


کاش اس بات پہ جھگڑا ہوتا
علم کس شخص کا زیادہ ہے
کس کا اخلاق سب سے ہے بہتر
کس کا کردار سب سے اچھا ہے 

کاش اس بات پر بحث ہوتی
کون انسان سب سے پیارا ہے
مال کی کس میں سب سے  کم ہے ہوس
زندگی کس کی سب سے سادہ ہے

کاش یہ راز کھوجتے سارے
عام انسان کس کو پیارا ہے
کس نے دن قوم کی مصیبت پر
آج روتے ہوئے گزارا ہے

یوں جو ہوتا تو پھر کہیں آصف
اصل میں کوئی نہ جھگڑا ہوتا
یہ وطن نفرتوں کی رسی میں  
اس طرح آج نہ جکڑا ہوتا

August 31 – 2014

Duaa

jo bigaar hyn wo sanwaar day
mery shaqseat ko nikhaar day

myn samandaron k hoon roobaroo
mujhay raah bana k guzaar day

yeh asar hayn meray gunaah ka
mujhay zulmato se nathaar day

tery naukari ka ehal banoo’n
mujhay karam se aisa sanwar day

mujhay dooryo sey hon wehshatayn
mujhay qurbaton se khumaar day

mujhay khud parasti se khud chura
mujhay bandagi ka hisaar day

mery fikr tery raza banay
mujhay feslo k mayaar day

mujhay jald aisay udhaar day
k udhaar saaray utaar day

mujhay bandagi ka aseer kar
na talab na raah e Farrar day

myn wahi hun aasif e kam yaqee’n
tu mujhay yaqee’n sey waqar day

لہو لہو هے پھر وطن

لہو لہو هے پھر وطن

جنگلوں سے ظلم کے
آن کے درندوں نے
پہر سے گهر اجاڑے هیں
پہول روند ڈالے ہیں

کہ رہی هیں آیتیں
ایک بے گناہ لہو
پوری کائنات هے
کس طرح کی هے یہ خو

کہ رها هے یہ خدا
عالمیں پہ رحمت هے
میرا مصطفی (ص) نبی
پہر بهی یہ درندگی؟؟

سچ تو یہ هے ظلم کو
دیدو کوئ نام بهی
ظلم بس ظلم هے
اس کو پیاس خون کی

میں یہ سوچتا هوں کہ
اب کہ اشک نہ رکیں
آئو یہ دعا کریں
اب کہ زخم نہ بهریں

اب کہ چین نہ ملے
هر لعئیں کے مرنے تک
اب کہ درد نہ تهمے
ملک کے سنورنے تک

شجر_ بد کو ظلم کے
جڑ سے رب اکهاڑ دے
اس کا باغباں هے جو
اس کا گهر اجاڑ دے

December 17, 2014

کرب

کچھ سہمے ہوئے  چہرے …کچھ اجڑے ہوئے  کوچے

آسیب کے دامن میں… کچھ پلتے ہوئے بچے

آواز ‘سائرنوں’ کی … کچھ لمحوں کہ وقفے سے

هر ایک کو جلدی هے..گهر پہنچے ..که نه پہنچے

اک درد کی خاموشی..هر سمت فضامیں هے

خاموشی بهی اس گهر سی…هو موت کہیں جیسے 

پھیکا سا چہچہائیں…پیڑوں پہ پرندے بهی
انساں کی خبر کیا دوں.. ڈرتے ہیں درندے بهی

انجان سے لگتے ہیں…گو سارے هیں گهر اپنے

کچہ روز کے وقفے سے…لوٹا هوں شہر اپنے

February 2, 2014

شہید جعفر بھائی کے نام

خلد میں ہوگا یہ اعلان تیری آمد پر

مولا ‘عبّاس ع کا غمخوار’چلا آیا ہے

اک جگہ خالی تھی عبّاس ع کےدربار میں جو

نوکری کا تھا وہ حقدار چلاآیا ہے

میرے پرچم کو جو دقّت سےسجاتا تھا بہت

اس پہ ہو پھولوں کی بوچھار…چلا آیا ہے

رنگ بڑھ جائے گا شہداء کی عزاداری میں  

فرش سے ایک عزادار چلا آیاہے

نام_ اصغر ع پہ پلاتا رہاپانی اکثر

جام_ کوثر کا طلبگار چلاآیا ہے

کتنی ویران ہے احباب کی بیٹھک اب کہ

جس سے ‘ہلچل’ تھی…وہی یار…چلا آیا ہے