(خراج عقیدت – سید نجف حسین زیدی(گڈو بھائی

کرب و بلا کے واسطے محو بکا رہا
جب تک رہا وہ رونق فرش عزا رہا

دو ماہ کی عزا سے کہاں تھی عزا تمام
ہر اک شب جمعہ سر ماتم کھڑا رہا

بیبی ع ہر اک گواہ ہے کہ بیمار تھا مگر
حاضر غم حسین ع میں وہ با خدا رہا

دیکھا ہے کتنی بار جو ساتھی نہ آسکے
تنہا وہ اپنی ذات میں ‘حلقہ’ بنا رہا

داغ عزا سے قبر میں ساطع ہوا جو نور
اک سینہء سیاہ سے اندھیرا مٹا رہا

لینے ‘نجف’ کو آئے تو ہوں گے نجف سے وہ
وہ کھیر جو غدیر پہ خود بانٹتا رہا

آصف گماں قوی ہے خبر آئے خلد سے
‏دو بھائی روبرو ہوئے۔۔ ماتم بڑا رہا

بیاد ذاکر اہل بیت ع سید یوسف رضا جعفری

بیاد ذاکر اہل بیت ع سید یوسف رضا جعفری

یوسف بھائی کی دسویں برسی کے موقع پر ان کے بردار عزیز جناب ثاقب بھائی کا پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میرے لئے ممکن ہو تو یوسف بھائی کے متعلق اپنے خیالات کو آڈیو میسج کی شکل میں ارسال کر دوں. لیکن یوسف بھائی سے جو میرا تعلق رہا ہے اس حوالے سے جی چاہا کہ کچھ قلم کو حرکت دی جائے اور متفرق خیالات کو جوڑ کر کسی حد تک منظم تحریر ان کے بھائی اور دیگر چاہنے والوں کی خدمت میں پیش کی جائے.

یوسف بھائی سے ہماری آشنائی ماتمی دستے اور غازی ع سنگت کے باہمی رابطے اور جوائنٹ پروگرامز کی وجہ سے ہوئی. اور جیسا کہ لوگ کہا کرتے ہیں امام ع کے نام پر بننے والے رشتے بعض اوقات بہت سے دوسرے رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے ہیں، یوسف بھائی کے ساتھ ہمارا معاملہ کچھ ایسا ہی رہا. انتہائی مختصر مدت میں یوسف بھائی اپنی منفرد شخصیت اور ذاکری کی خداد صلاحیت کے باعث ہمارے بے حد قریب آگئے.

وہ زمانہ نوجوانی کا زمانہ تھا، جس میں جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر بار بار پلکوں کے ساحل سے ٹکرا کر باہر نکلنے کا تقاضا کیا کیا کرتا ہے. اور جب درد اس نہج پر پہنچ جائے تو روح اہل درد احباب کی صحبت طلب کیا کرتی ہے. جس میں دل کسی دوسرے کی زبان سے اپنا حال سننا چاہتا ہے اور سر کسی ایسے کاندھے کا منتظر ہوتا ہے جو بغیر کسی نصیحت  یا تسلی کے درد اس طرح سے بانٹنے کا ہنر جانتا ہو، کہ درد دو چند ہوجائے.

گو کہ اکثر ہم دوست خود نوحہ خوانی کر کے اپنا دل ہلکا کر لیا کرتے تھے، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کبھی کسی دوسرے کی زبان سے اپنا حال سننے کا دل چاہتا ہے.

جب بھی یہ کیفیت آیا کرتی تھی، دل یوسف بھائی کو پکارا کرتا اور وہ بندۂ خدا بغیر کسی تکلف کہ ہماری مجلس میں شریک ہو کر دلوں میں موجود چنگاریوں کو شعلہ ور کر دیتا.

سادگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی یہ نہیں پوچھا کہ کتنے آدمی شریک ہیں، کیمرہ ہے یا نہیں، مائک استعمال کریں گے یا نہیں؟ ان کو بھی معلوم تھا کہ یہ تعداد شاید دس سے زیادہ افراد پر مشتمل نہیں ہوگی. کسی کمرے میں عزاخانہ کھلا ہوگا، یا کسی چھت پر علم کے نیچے بیٹھے ہوں گے. چاہے نوکری سے جتنا تھکا ہارا آیا ہو، ہم نے اس بندہ خدا سے کبھی مجلس کے لئے نہ نہیں سنی.

یہاں تک مجھے یاد ہے کہ انتقال سے کچھ عرصے قبل باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا تھا کہ ایکسیڈنٹ کے بعد سے ٹانگ میں تکلیف بہت زیادہ ہوگئی ہے. اور گھٹنے کے جوڑ کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ بائیک پر سوار ہو کر دوبارہ اترنا جیسے جوۓ شیر لانے جیسا ہوگیا ہے. لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اس کیفیت میں بھی کبھی کسی کو ذاکری کے لئے انکار کیا ہوگا.

تواضع کا یہ عالم تھا کہ ادھر ممبر سے اترے، ادھر ماتمی حلقے میں شامل ہوگئے. نہ کسی پروٹوکول کی طلب، نہ ہی تکلفات کی خواہش. ان کے ہر دل عزیز ہونے کا ایک راز شاید ان کی یہ سادہ ترین شخصیت بھی تھی.

ہمارا پڑھا ہوا نوحہ عباس ع شہادت سے پہلے  ان کو بے حد پسند تھا. اپنی والدہ کی برسی کی مجلس میں انکی ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ یہ نوحہ ضرور پڑھا جائے. کہتے تھے کہ میں مصائب یہی پڑھوں گا، آپ اس کے بعد یہی نوحہ پڑھ دیجیۓ گا. کبھی (ایک بڑی انجمن کا نام لیکر) کہتے کہ اگر یہ نوحہ وہ پڑھ دیتے تو….

ہم اگرچہ کم عمر تھے، لیکن ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہے. کبھی نوحوں کے درمیان ہمیں آیات، مصائب یا اشعار پڑھوانے ہوں تو یوسف بھائی بلا کسی حیل و حجت کے ہمارے بلاوے پر اسٹودیو آجایا کرتے تھے. اسی بہانے ہمارے نوحوں کے درمیان ان کی آواز ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئی.

میرے دوست نے کیا ہی خوب کہا کہ سچ یہ ہے کہ ان کے بعد آج تک ہم ان کا متبادل نہیں تلاش کر سکے. اور یہ اس لئے ہے کہ ان کا متبادل ہے ہی نہیں. وہ ایک ہی تھے، دیوار میں لگی ہوئی اس اینٹ کی مانند ، کہ جس کے نکل جانے کے بعد دیوار میں موجود خلا کسی صورت پر نہیں ہو سکتا.

وہ عین جوانی میں، اس فتنوں بھری دنیا سے اہل بیت ع کی بارگاہ میں نقل مکانی کر گئے اور بالیقین اس بارگاہ میں بھی ان ہی کی نوکری انجام دے رہے ہوں گے. نقصان در حقیقت ان کا ہوا جو پیچھے رہ گئے.

آپ تمام پڑھنے والوں سے اس عزادار کے لئے سورہ فاتحہ کی التماس ہے.

آصف رضوی

از طرف غازی ع سنگت (رضویہ سوسائٹی – کراچی)

شہید جعفر بھائی کے نام

شہید جعفر بھائی کے نام

ایک فون کال آئی….اور اسکے بعد کافی دیر تک میں عجیب و غریب کیفیت میں رہا…اگرچہ پچھلے کچھ سالوں سے جسطرح کے حالات ہیں…یہ دماغ کو ماؤف کر دینے والی کیفیت کوئی نئی بات نہیں ہے…ہرشہادت کا انسان پر اثر مختلف اثر ہوتا ہے…یوں تو امام حسین ع کے رشتے سے…ہر شہیداپنا ہے اور دل پر ایک اثر چھوڑتا ہے…لیکن اگر کوئی بچپن سے مانوس انسان، جوصحیح و سالم گھر سے نکلا تھا،  خون میںڈوبی لاش بن کر محلے میں واپس آئے تو واقعی اہل_محلہ اور احباب پر قیامت ٹوٹ پڑتیہے…

بچپن کی یادوں کے دریچے ایکایک کر کے کھلتے چلے گئے….کال بیل بجتی تھی…اوپر سے جھانکا تو نیچے جعفر بھائیپتنگ اور ڈور ہاتھ میں پکڑے کھڑے ہیں…اس کے بعد کبھی گلی میں کرکٹ، ہاکی، فٹبالیا فریذبی ..کچھ بھی ہو.. جعفر بھائی اس کا لازمی جزو تھے…

یادوں کے ایک اور دریچے پرگڈو بھائی (شہید جعفر کے بڑے بھائی)  کھڑےدکھائی دئیے…سارے محلے کی جان تھے…اور گلی کے ہر گھر کے لیئے ایک فیملی ممبرکی حیثیت رکھتے تھے…ایک دن اپنے ماموں کے ساتھ نکلے تھے ..کچھ دن لاپتہ رہے…اور پھر اس کے بعد ماموں، بھانجے کی لاشیں امام ع بارگاہ میں رکھی تھیں ..ایسااخلاق تھا کہ (والدہ کے بقول)لوگ جوان موت پر دیواروں سے سر ٹکرا رہے تھے ..تقریباًبیس سال بعد وہی امام ع بارگاہ اور چھوٹا بھائی بھی …

بعض لوگ فطرتاً کم گو ہوتےہیں…لیکن ان کا کام ان کا کلام ہوتا ہے …جو ان کے تخیل کی خوبصورتی کا ترجمانہوتا ہے…انجمن_ غمخواران عبّاس ع کے پروگرام میں شرکت کے لیئے ایک دن امامبارگاہ پہنچے توعلم_ باب الحوائج ع کو دلہن کی طرح سجا ہوادیکھا …اتنا حسین لگرہا تھا کہ پہلے کبھی ایسا نہ دیکھا تھا …بعد میں علم ہوا کے یہ شہید جعفر بھائیکی کاوش تھی ..

ایک بڑے بھائی کی طرح ہمیںنوحہ خوانی کے لیئے ہر سال اپنے دوست کے گھر لیجاتے تھے …اور بے حد حوصلہ افزائیبھی کرتے تھے….

بہرحال…جو ان کے اہل_ خانہبالخصوص ان کے پدر_ ضعیف  پر گزری …اوران کے دوستوں پر گزری یقیناً اس کا کچھ حصّہ بھی دوسرے محسوس نہیں کر سکتے…جعفربھائی جیسے لوگ جب ہوتے ہیں تو کم گفتاری کی وجہ سے شاید اظہار_ وجود کم ہے کرتےہوں…لیکن جب ‘نہیں’ ہوتے ہیں…تو ایک خلاء چیخ چیخ کر کہ رہا ہوتا ہے …کہ’وہ’ نہیں ہیں ….

شہادتوں کے یہ سفر جاری ہے..شایدظہور_ امام_ زمان ع تک جاری رہے گا …ہمارے ہر زخم کا مرہم بلآخر کربلا ہی ہے…اسمظلومانہ شہادت پر بھی اگر ہم اس کی طرف دیکھیں گے…تو ہمیں ایک بوڑھے باپ کیمظلومیت یہ کہتی دکھائی دے گی…اے لوگوں..تمھارے جوان کو اٹھانے کے لیئے کاندھےتو تھے…تم نے اسے غسل دیا….کفن دیا …اس پر دل کھول کر روئے بھی..کسی نے اسکی بہنوں کو رونے پر سزا تو نہیں دی…ارے اس کا ضعیف باپ تنہا تو نہیں تھا…..مگر…میرا علی اکبر ع……………..

آخر میں شہید جعفر بھائی کومختصر خراج_ عقیدت

..

خلد میں ہوگا یہ اعلان تیری آمد پر

مولا ‘عبّاس ع کا غمخوار’چلا آیا ہے

اک جگہ خالی تھی عبّاس ع کےدربار میں جو

نوکری کا تھا وہ حقدار چلاآیا ہے

میرے پرچم کو جو دقّت سےسجاتا تھا بہت

اس پہ ہو پھولوں کی بوچھار…چلا آیا ہے

رنگ بڑھ جائے گا شہداء کی عزاداری میں  

فرش سے ایک عزادار چلا آیاہے

نام_ اصغر ع پہ پلاتا رہاپانی اکثر

جام_ کوثر کا طلبگار چلاآیا ہے

کتنی ویران ہے احباب کی بیٹھک اب کہ

جس سے ‘ہلچل’ تھی…وہی یار…چلا آیا ہے

(شہید جعفر عبّاس جعفری ..انکے ہمراہ شہید ہونے والوں ..اور تمام شہدائے ملّت_ جعفریہ کے لیئے سورہ_ فاتحہ کی گزارش ہے)

January 13, 2015 at 7:54 PM

شہید استاد بشیر

فارسی زبان سیکھنے کے شوق میں ہم اس کلاس روم تک پہنچ گئے جہاں بشیر محمدی صاحب پڑھایا کرتے تھے … لبوں پر مسکراہٹ رہتی تھی مگر اپنے درس کے معاملے میں بے حد سنجیدہ رہتے تھے…کلاس کی ابتداء سعدی یا حافظ کے کسی پرمعنی کلام سے ہوا کرتی تھی….اور اس کلام پر ڈسکشن کے ساتھ …زبان کی مشق اور ذہنی وسعت، دونوں شکار ہوجایا کرتے تھے …استاد کے مخلص ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی خدمات محض کلاس کے کمرے تک محدود نہیں تھیں…اس کے علاوہ بھی آپ ان سے وقت لیکر انفرادی نشست کر سکتے تھے…بس سیکھنے کی لگن ہونی چاہیئے ، پھر استاد بشیر آپ کے ساتھ ہیں…اور کلاس کی کوئی حدود نہیں ہیں

جن دنوں ہم نے فارسی پڑھنا شروع کی تھی …ان دنوں بھی شہر کے حالات اکثر خراب ہی رہا کرتے تھے … مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بار ایسے ہی کسی روز ہم کلاس سے غیر حاضر رہے….تو اگلی کلاس میں انہوں نے باز پرس کی…ہم نے جواب دیا ‘سر شہر کے حالات ٹھیک نہیں تھے’ …اور جہاں تک یاد پڑتا ہے اس روز بھی کسی بےگناہ کو شہید کیا گیا تھا جس کا ذکر استاد سے بھی ہوا … استاد بشیر نے یہ سن کر انتہائی اطمینان کے ساتھ جواب دیا….’دیکھیئے….مولا علی ع کا قول ہے … ‘انسان کی زندگی کی سب سے بڑی محافظ اس کی موت ہے’ یعنی آپ کا وقت پورا ہونے سے پہلے آپ کو موت نہیں آسکتی….اس کے بعد کہنے لگے….آپ حضرات ایک نیک کام کی خاطر یعنی علم کے حصول کے لیئے یہاں آتے ہیں….تو گھبرانے کی کیا بات ہے؟

واقعی کس قدر یقین تھا انہیں مولا ع کے اس قول پر…کہ جتنی سانسیں لکھی ہیں اتنی ہی لینا ہیں….بہرحال آج صبح انکوائری آفس کے قریب دو بھائیوں کی شہادت کی اطلاع ملی …اور کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ  ہمارے عزیز استاد بشیر کو ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ شہید کر دیا گیا ہے …اور میتیں باب العلم امام بارگاہ میں رکھی ہیں ….جنہیں بعد میں اسکردو بھیجا جائے گا

خبر سن کر استاد کا ہنستا مسکراتا چہرہ اور ان کی باتیں ذہن میں گھومنے لگیں …خاص کر مولا ع کا وہ قول جو انہوں نے کلاس میں سنایا تھا..کہ ..انسان کی سب سے بڑی محافظ اس کی موت ہے

آج مادر وطن ایک  اور شفیق استاد اور مخلص دوست سے محروم ہوگئی…جس کے دامن میں اس ملک کے لیئے سواۓ خیر کے اور کچھ نہیں تھا…ہم شاید ان بد نصیب اقوام میں سے ہیں جنہیں اپنے نقصانات کی نوعیت کا اندازہ بھی نہیں ہے … اچھے اور مخلص افراد تو معاشروں کی روح کا درجہ رکھتے ہیں ….کل رات زائرین پر حملہ کیا گیا …اور کراچی ائیر پورٹ پر بھی ….کل ملا کے پچاس کے لگ بھگ جانیں ضائع ہوئیں….خدا جانے انہیں بچانا کس کی ذمہ داری تھی جس نے ادا نہیں کی …خدا جانے دہشت گردی کے یہ فصل جس نے لگائی تھی اس کا کیا انجام ہونا چاہیئے .. خدا جانے اس کا حل کیا ہے …عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے

جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ….اسی رفتار سے اگر ہم استاد بشیر جیسے عظیم انسانوں سے محروم ہوتے رہے …اور انہیں محض ایک ‘مسلک’ کا نقصان سمجھتے رہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم مکمل طور پر ایک ‘مردہ’ قوم بن جائیں گے …اور پھر……. بس…. آگے لکھنے سے بھی قلم کانپتا ہے

التماس سورہ فاتحہ شہید استاد بشیر اور ان کے برادر عزیز کے لیئے-

June – 2014

یا غازی عبّاس ع

آج ایک فقیر نے گھر کی بیل بجا کر یا غازی عبّاس ع کا نعرہ لگایا .اور اپنی جھولی بھر کر چلا گیا

…کسقدر یقین ہوتا ہے مانگنے والوں کو ….کہ اس نام پر تو ملے گا ہی ….اور وہی ہوا..

محلے میں ایام _ عزا کے دوران جو ‘کان میلیاں’ کہلائی جانے والی خواتین ..بچوں کو گودیوں میں دباۓ ہوۓ کئی کئی مہینوں کا راشن …مجالس کے تبرک سے جمع کر لیتی ہیں…ان کا مسلک چاہے کوئی بھی ہو…انہیں یقین ہوتا ہے یا حسین ع کریں گے تو خالی پیٹ نہیں رہیں گے …

اسی طرح محلے کی شیعہ آبادی میں ہر رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے افراد آ کر اہل بیت ع کے نام پر صدا لگاتے ہیں …اور اپنی جھولیاں بھر کے چلے جاتے ہیں …

کیوں کہ ہمارے گھر پر علم لگا ہوا ہے…لہٰذا ہمارے گھر سے فقراء کو امید بھی زیادہ ہوتی ہے…یہ عجیب بات ہے ….علم کیا ہے ؟ نشان ہے …اہل بیت ع کا نشان ….کل بھی جب فقیر اہل بیت ع کے در پر آ کر مانگا کرتے تھے تو انہیں یقین ہوتا تھا کہ اس در سے خالی نہیں لوٹیں گے…

یہاں تک کے پورے پورے دن کے روزے کے بعد …جب افطار کے وقت بھی مانگنے والا آیا تو سارا کھانا اٹھا کر اسے دے دیا ….اور ایک بار نہی بارہا ایسا ہی کیا…اسی لئے خالق نے ان ہستیوں پر ناز کیا…اور قران میں آیات کی شکل میں داد دی …

ایک عالم_ دین کا پڑھا ہوا واقعہ یاد آیا …جس میں انہوں نے کربلا کا قصّہ نقل کیا…کہ ایک بوڑھی عورت روضے کے باہر برسوں سے بیٹھی ہوئی تھی…اس سے سوال کیا …تم اتنے عرصے سے بیٹھی ہوئی ہو …تمہارے کھانے پینے کا بند و بست کون کرتا ہے…اس عورت نے مولا حسین ع کے روضے کی طرف نگاہ کر کے کہا …’یہ خود بھوکا پیاسا شہید ہوا تھا….دوسروں کو بھوکا پیاسا نہیں دیکھ سکتا…(یہی بند و بست کرتا ہے)…’

کائنات کا یہ عجیب و غریب راز ہے ….جب دنیا میں مستحق افراد ..ہم جیسے بے اختیار لوگو ں سے …..نام_ حسین ع پر اس یقین سے مانگتے ہیں ..اور پاتے ہیں ..تو ہم خالق_ حسین ع سے اس کی محبوب ہستیوں کے نام پر کیا کچھ مانگ سکتے ہے ….کاش وہ محبت بھرا ‘یقین’ حاصل ہو جائے ….جس کی لاج رکھی جائے ….

May 31 – 2014

علی اصغر ع

علی اصغر ع

نو رجب کی شب آگئی….انقلاب_ کربلا کی تیاری کرنے والے امام ع کے گھر ایک ایسے شہزادے نے آنکھ کھولی …جسے بیس دن بعد ہی کربلا کے سفر پر نکل جانا تھا…گویا وہ ‘ھل من ناصر’ کا جواب بن کر …چھ ماہ پہلے ہی دنیا میں آگیا تھا ….

تاریخ نے یہ تو بتایا …کہ امام حسین ع کو آغوش میں لیکر رسول اللہ ص نے گریہ فرمایا ..شہزادی زینب ع کو آغوش میں لیکر بھی رسول ص روتے رہے….لیکن شہزادہ علی اصغر ع کو آغوش میں لیکرمولا حسین ع کے جذبات کیا رہے ہوں گے ….یہ کربلا کے لشکر کا آخری…اور کمسن ترین سپاہی بھی ہے…یہ اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی آخری اولاد بھی ہے ….یہی مظلومیت کی انتہا پر ‘دلیل’ بھی ہے….

بقول تنویر نقوی مرحوم
ہوگئیں نانا مکمل  سب    میری    قربانیاں
آگیا دنیا میں اصغر ع تیر کھانے کے لیۓ 

دشمن نے اصغر ع پر تیر کیوں چلایا؟ ایک چھ ماہ کے بچے سے اسے کیا خطرہ تھا؟ ان سوالوں کا جواب شاید یہ ہے کہ….ظلم کی سب سے بڑی مدد پتھروں کی طرح سخت ہوجانے والے دل ہوتے ہیں…جو رحم سے خالی ہوتے ہیں…اور باطل کے راستے پر چلتے چلتے …یہ ‘شقاوت’_ قلبی دھیرے دھیرے ہی میسر آتی ہے ….اور پھر انسان درندہ بن جاتا ہے اور شیطان کے ہاتھ کا کھلونا بھی ….اس سے بدترین انسانیت سوز جرائم کروائے جا سکتے ہیں…

آج کے دور میں جو دہشت گرد ….انسانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ….ان کے قلب و جگر کو چبا رہے ہیں …ایک دھماکا کر کے ١٠٠ ١٠٠ گھر ایک ساتھ اجاڑ دیتے ہیں…یہ کام ایک عام انسان ہرگز نہیں کر سکتا…اس کے لیۓ انسان کے دل کو ایک خاص شقاوت درکار ہوتی ہے جس کے حاصل ہونے پر وہ شیطان کا مقرب ہوجاتا ہے ….

کہتے ہیں کہ علی اصغر ع کے میدان میں آنے پر….یزیدی لشکر کے بڑے بڑے ‘پتھر’ دلوں نے رونا شروع کر دیا تھا….شقاوت آنکھوں سے بہنا شروع ہوگئی تھی…یہ یزیدیت کے لیئے  خطرناک بات تھی ..کہیں یہ دل نرم ہو گئے تو کیا ہوگا؟؟ پھر تو یہ ہدایت قبول کرنے کے قابل ہوجائیں گے …پھر ہو سکتا ہے توبہ کی طرف بھی مائل ہوجائیں …پھر ہو سکتا ہے بغاوت کردیں اور اکھتر لاشے گرانے کے بعد بھی  …کہیں حسینی نہ بن جائیں….

گویا شہزادے نے ….پوری یزیدی عمارت کو بنیادوں سے ہلانا شروع کر دیا تھا ….اور رحمٰن کا سب سے کمسن نمائندہ شیطان کے لیئے ….سب سے بڑا خطرہ بن کر میدان میں …آغوش پدر میں شہسواری کر رہا تھا ….

شیطان نے فوراّ اپنے نمایندے پر وحی کی ….اور بلآخر …شقی ترین شخص نے تیر چلا دیا….

جو بات شیطان نہیں سمجھ سکا تھا…وہ یہ تھی کہ …زندہ حسین ع …خطرناک ضرور تھے …لیکن
شہید حسین ع …..ابد تلک کے لیئے خطرہ بن گئے…ان کی مظلومیت محشر تلک آنکھوں کو رلاتی رہے گی …اور دل نرم ہوتے رہیں گے….ہدایت پاتے رہیں گے….حسین ع دلوں کو ‘نرماہٹ’..دے گئے ….گناہوں سے دور رکھنے والی…جب دل غم میں اور آنکھ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے …تو گناہ سے ..برائی سے کیسی بے رغبتی محسوس ہوتی ہے …

یہ حسین ع کی بانٹی ہوئی خیرات ہے ….جو انسان کو معراج دے سکتی ہے …سلام بر حسین ع 

محسن نقوی کا شعر گونجا
اس کمسنی میں یوں صف_ اعداء سے انتقام
اصغر ع تو   ابتداء سے   ہوا   انتہا     پسند!

اور پھر…حسین ع … اپنی اور اپنے اصحاب و انصار کی اس طرح شہادت پیش کر کے…انسان کو موت سے بھی بے خوف کر گئے….

اس شہزادے کی فضیلتیں مصائب میں ہی ڈوبی ہوئی ہیں …


زمیں پہ آیا بھی اور بن چلے   چلا   بھی    گیا
زمیں ترس گئی اصغر ع کے نقش پا کے لیئے

ہمیں نہیں معلوم کہ امام ع نے اس کی شہادت کے بعد شہزادی ام رباب ع کا سامنا کیسے کیا…..بس اپنوں سے یہی گزارش ہے ….کہ شہادت اور عام موت میں فرق کریں ….اپنوں کو کھو دینا یقیناّ بڑی مصیبت ہے …..لیکن بلآخر حب_ علی ع کے جرم میں شہید ہوجانا …حسینی تحریک کا حصّہ بن جانا ہے ….اور ہر غم میں سب سے بڑا مرہم …ہمارے لیئے مولا چھوڑ گئے …اپنا غم

اصغر ع کی ساری عمر سفر میں گزر گئی
یہ وہ علی ع ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا

آخر میں ایک دعا …پروردگار …شہزادی رباب ع کی دو بار اجڑنے والی گود کے صدقے …خالی گودیاں آباد کر دے ….اور بھری گودیوں کی حفاظت فرما …..محمد و آل_ محمد ص کے فرج و کشادگی میں…اور علی اصغر ع کے خون کا انتقام لینے میں  تعجیل فرما ….

May 8 – 2014

A Ramadan In Qom

                                                            This year’s Ramadan is one of its kind in my life so far. I have the honor of living on the land of Lady Masooma a.s since a few days, and this was my first Ramadan here. Haram e Sayyada Masooma a.s is not far from where I am residing in, so, after breaking my fast I usually walk towards my ‘holy comfort zone’. Even though its quite difficult to live away from family & friends, when I enter Haram, it feels like I am under the shadow of a grandmother’s ‘chador’. The feeling is beyond description, and I think its better not to try describing it(I can not risk feeling empty after giving it away :)).

Before arriving in the holy city, I heard people saying that Ramadan in Qom has no match whatsoever. I only realized what they meant as the ‘shabhaa e qadr’ (the odd nights at the end) approached. The first one was the shab of 19th Ramadan. I approached Haram and to my surprise the roads were blocked. Yes, it was not only shab e qadr but shab e Zarbat eImam Ali a.s as well. People were dressed up in black, and organizers were busy in arrangements for the Holy night. My amazement kept increasing as I noticed that the number of zaaireen is a 100 times more than it usually is. I asked one of the ‘khuddaams’ about the program for the night. Quite unusual for me, he had a printed brochure in hand detailing everything that is going to happen until ‘fajr’. I took a look at it, and then I entered Haram.

After doing ziarat, and saying Salam to Shaheed Motahri & Agha Behjat I entered Shabistan e Imam Khumeini rh (the main prayer hall close to Zareeh). Sukhanraani (khutba/speech) was going on. After reciting the importance of the holy month, etc Sheikh reached the ‘masaaib’ part, and every one was in tears as his speech finished. As he left the ‘mimber’ a ‘qaari’ arrived and started ‘qirat’, which was then followed by ‘Dua e Joshan e Kabeer’.(Unfortunately) it was my first experience of that dua. I realized the extent of ‘noor’ left by Ahleybayt a.s is just beyond limits (how ignorant we are!); its certainly upon our capability to utilize it.

Qaari kept reciting one ‘verse’ after another of Dua, reciting ‘masaib e Ahleybayt a.s’, calling Imam e Zamana a.s for help and asking Alllah for forgiveness & blessings. The feeling was again ‘beyond description’. It felt like chests are being ‘opened up’ and the attendees are getting closer…and closer to ALLAH. After each verse, comes the line to repeat ‘Subahanka La Ilaha…..’ that ends on requesting ALLAH for refuge from the (fire of) hell.

For an impatient person like me, it was hard to wait until the end of dua (it has 100 verses), and I decided to leave. As I came out of the hall, I realized all the halls and ‘sahan’ of haram are full. I came outside. I saw that even the parking lots, streets and footpaths are full of people (men & women, old & young..sitting with families) watching and praying with the help of ‘screens & projectors’, all around the haram. I walked backed towards my home, with the echo of ‘ Subahanka La Ilaha….’.

(This was written year ago…)

Ummul Momineen – Shahzadi Khadija (sw)

Shaheed Murtaza Motahri writes in Seerat e Nabwi (sw): After his marriage to Hz Khadija (sw), people could have expected him to get involved more into the financial stuff, taking measures to expand the business he is now the owner of, etc. But, the reverse happened. He started spending more time in Ghaar e Hira, contemplating and talking to His LORD more (the only person witnessing his Ibadat was Mola Ali a.s – a young boy, then).

Hz Khadija (sw) supported Hz Muhammad (sw) at each step of his (apparent) spiritual journey. She used to prepare, and carry food for him, climbing up the hills to deliver it herself. She agreed without delay when the Prophet (sw) preached her Islam. Islam was, then, only in the walls of her house, where She & Mola Ali a.s were the only followers.

When people of Mecca boycotted RasulAllah (sw) socially and Islam was very weak economically, she surrendered all her wealth to Rasul Allah (saw).

It was due to her ‘character & khuloos’ that even in his last days, Rasul Allah (sw) used to miss her.

Our salam on this Lady who is the ‘mother’ of the QUEEN OF LADIES OF JANNAT, and mother of 12 MASOOMEEN!

ASSLAM O ALAIKI YA KHADIJATAL KUBRA (sw)