بیاد ذاکر اہل بیت ع سید یوسف رضا جعفری
یوسف بھائی کی دسویں برسی کے موقع پر ان کے بردار عزیز جناب ثاقب بھائی کا پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میرے لئے ممکن ہو تو یوسف بھائی کے متعلق اپنے خیالات کو آڈیو میسج کی شکل میں ارسال کر دوں. لیکن یوسف بھائی سے جو میرا تعلق رہا ہے اس حوالے سے جی چاہا کہ کچھ قلم کو حرکت دی جائے اور متفرق خیالات کو جوڑ کر کسی حد تک منظم تحریر ان کے بھائی اور دیگر چاہنے والوں کی خدمت میں پیش کی جائے.
یوسف بھائی سے ہماری آشنائی ماتمی دستے اور غازی ع سنگت کے باہمی رابطے اور جوائنٹ پروگرامز کی وجہ سے ہوئی. اور جیسا کہ لوگ کہا کرتے ہیں امام ع کے نام پر بننے والے رشتے بعض اوقات بہت سے دوسرے رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے ہیں، یوسف بھائی کے ساتھ ہمارا معاملہ کچھ ایسا ہی رہا. انتہائی مختصر مدت میں یوسف بھائی اپنی منفرد شخصیت اور ذاکری کی خداد صلاحیت کے باعث ہمارے بے حد قریب آگئے.
وہ زمانہ نوجوانی کا زمانہ تھا، جس میں جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر بار بار پلکوں کے ساحل سے ٹکرا کر باہر نکلنے کا تقاضا کیا کیا کرتا ہے. اور جب درد اس نہج پر پہنچ جائے تو روح اہل درد احباب کی صحبت طلب کیا کرتی ہے. جس میں دل کسی دوسرے کی زبان سے اپنا حال سننا چاہتا ہے اور سر کسی ایسے کاندھے کا منتظر ہوتا ہے جو بغیر کسی نصیحت یا تسلی کے درد اس طرح سے بانٹنے کا ہنر جانتا ہو، کہ درد دو چند ہوجائے.
گو کہ اکثر ہم دوست خود نوحہ خوانی کر کے اپنا دل ہلکا کر لیا کرتے تھے، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کبھی کسی دوسرے کی زبان سے اپنا حال سننے کا دل چاہتا ہے.
جب بھی یہ کیفیت آیا کرتی تھی، دل یوسف بھائی کو پکارا کرتا اور وہ بندۂ خدا بغیر کسی تکلف کہ ہماری مجلس میں شریک ہو کر دلوں میں موجود چنگاریوں کو شعلہ ور کر دیتا.
سادگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی یہ نہیں پوچھا کہ کتنے آدمی شریک ہیں، کیمرہ ہے یا نہیں، مائک استعمال کریں گے یا نہیں؟ ان کو بھی معلوم تھا کہ یہ تعداد شاید دس سے زیادہ افراد پر مشتمل نہیں ہوگی. کسی کمرے میں عزاخانہ کھلا ہوگا، یا کسی چھت پر علم کے نیچے بیٹھے ہوں گے. چاہے نوکری سے جتنا تھکا ہارا آیا ہو، ہم نے اس بندہ خدا سے کبھی مجلس کے لئے نہ نہیں سنی.
یہاں تک مجھے یاد ہے کہ انتقال سے کچھ عرصے قبل باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا تھا کہ ایکسیڈنٹ کے بعد سے ٹانگ میں تکلیف بہت زیادہ ہوگئی ہے. اور گھٹنے کے جوڑ کی حساسیت کا عالم یہ ہے کہ بائیک پر سوار ہو کر دوبارہ اترنا جیسے جوۓ شیر لانے جیسا ہوگیا ہے. لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اس کیفیت میں بھی کبھی کسی کو ذاکری کے لئے انکار کیا ہوگا.
تواضع کا یہ عالم تھا کہ ادھر ممبر سے اترے، ادھر ماتمی حلقے میں شامل ہوگئے. نہ کسی پروٹوکول کی طلب، نہ ہی تکلفات کی خواہش. ان کے ہر دل عزیز ہونے کا ایک راز شاید ان کی یہ سادہ ترین شخصیت بھی تھی.
ہمارا پڑھا ہوا نوحہ عباس ع شہادت سے پہلے ان کو بے حد پسند تھا. اپنی والدہ کی برسی کی مجلس میں انکی ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ یہ نوحہ ضرور پڑھا جائے. کہتے تھے کہ میں مصائب یہی پڑھوں گا، آپ اس کے بعد یہی نوحہ پڑھ دیجیۓ گا. کبھی (ایک بڑی انجمن کا نام لیکر) کہتے کہ اگر یہ نوحہ وہ پڑھ دیتے تو….
ہم اگرچہ کم عمر تھے، لیکن ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہے. کبھی نوحوں کے درمیان ہمیں آیات، مصائب یا اشعار پڑھوانے ہوں تو یوسف بھائی بلا کسی حیل و حجت کے ہمارے بلاوے پر اسٹودیو آجایا کرتے تھے. اسی بہانے ہمارے نوحوں کے درمیان ان کی آواز ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئی.
میرے دوست نے کیا ہی خوب کہا کہ سچ یہ ہے کہ ان کے بعد آج تک ہم ان کا متبادل نہیں تلاش کر سکے. اور یہ اس لئے ہے کہ ان کا متبادل ہے ہی نہیں. وہ ایک ہی تھے، دیوار میں لگی ہوئی اس اینٹ کی مانند ، کہ جس کے نکل جانے کے بعد دیوار میں موجود خلا کسی صورت پر نہیں ہو سکتا.
وہ عین جوانی میں، اس فتنوں بھری دنیا سے اہل بیت ع کی بارگاہ میں نقل مکانی کر گئے اور بالیقین اس بارگاہ میں بھی ان ہی کی نوکری انجام دے رہے ہوں گے. نقصان در حقیقت ان کا ہوا جو پیچھے رہ گئے.
آپ تمام پڑھنے والوں سے اس عزادار کے لئے سورہ فاتحہ کی التماس ہے.
آصف رضوی
از طرف غازی ع سنگت (رضویہ سوسائٹی – کراچی)