علی اصغر ع
نو رجب کی شب آگئی….انقلاب_ کربلا کی تیاری کرنے والے امام ع کے گھر ایک ایسے شہزادے نے آنکھ کھولی …جسے بیس دن بعد ہی کربلا کے سفر پر نکل جانا تھا…گویا وہ ‘ھل من ناصر’ کا جواب بن کر …چھ ماہ پہلے ہی دنیا میں آگیا تھا ….
تاریخ نے یہ تو بتایا …کہ امام حسین ع کو آغوش میں لیکر رسول اللہ ص نے گریہ فرمایا ..شہزادی زینب ع کو آغوش میں لیکر بھی رسول ص روتے رہے….لیکن شہزادہ علی اصغر ع کو آغوش میں لیکرمولا حسین ع کے جذبات کیا رہے ہوں گے ….یہ کربلا کے لشکر کا آخری…اور کمسن ترین سپاہی بھی ہے…یہ اللہ کی طرف سے عطا ہونے والی آخری اولاد بھی ہے ….یہی مظلومیت کی انتہا پر ‘دلیل’ بھی ہے….
بقول تنویر نقوی مرحوم
ہوگئیں نانا مکمل سب میری قربانیاں
آگیا دنیا میں اصغر ع تیر کھانے کے لیۓ
دشمن نے اصغر ع پر تیر کیوں چلایا؟ ایک چھ ماہ کے بچے سے اسے کیا خطرہ تھا؟ ان سوالوں کا جواب شاید یہ ہے کہ….ظلم کی سب سے بڑی مدد پتھروں کی طرح سخت ہوجانے والے دل ہوتے ہیں…جو رحم سے خالی ہوتے ہیں…اور باطل کے راستے پر چلتے چلتے …یہ ‘شقاوت’_ قلبی دھیرے دھیرے ہی میسر آتی ہے ….اور پھر انسان درندہ بن جاتا ہے اور شیطان کے ہاتھ کا کھلونا بھی ….اس سے بدترین انسانیت سوز جرائم کروائے جا سکتے ہیں…
آج کے دور میں جو دہشت گرد ….انسانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ….ان کے قلب و جگر کو چبا رہے ہیں …ایک دھماکا کر کے ١٠٠ ١٠٠ گھر ایک ساتھ اجاڑ دیتے ہیں…یہ کام ایک عام انسان ہرگز نہیں کر سکتا…اس کے لیۓ انسان کے دل کو ایک خاص شقاوت درکار ہوتی ہے جس کے حاصل ہونے پر وہ شیطان کا مقرب ہوجاتا ہے ….
کہتے ہیں کہ علی اصغر ع کے میدان میں آنے پر….یزیدی لشکر کے بڑے بڑے ‘پتھر’ دلوں نے رونا شروع کر دیا تھا….شقاوت آنکھوں سے بہنا شروع ہوگئی تھی…یہ یزیدیت کے لیئے خطرناک بات تھی ..کہیں یہ دل نرم ہو گئے تو کیا ہوگا؟؟ پھر تو یہ ہدایت قبول کرنے کے قابل ہوجائیں گے …پھر ہو سکتا ہے توبہ کی طرف بھی مائل ہوجائیں …پھر ہو سکتا ہے بغاوت کردیں اور اکھتر لاشے گرانے کے بعد بھی …کہیں حسینی نہ بن جائیں….
گویا شہزادے نے ….پوری یزیدی عمارت کو بنیادوں سے ہلانا شروع کر دیا تھا ….اور رحمٰن کا سب سے کمسن نمائندہ شیطان کے لیئے ….سب سے بڑا خطرہ بن کر میدان میں …آغوش پدر میں شہسواری کر رہا تھا ….
شیطان نے فوراّ اپنے نمایندے پر وحی کی ….اور بلآخر …شقی ترین شخص نے تیر چلا دیا….
جو بات شیطان نہیں سمجھ سکا تھا…وہ یہ تھی کہ …زندہ حسین ع …خطرناک ضرور تھے …لیکن
شہید حسین ع …..ابد تلک کے لیئے خطرہ بن گئے…ان کی مظلومیت محشر تلک آنکھوں کو رلاتی رہے گی …اور دل نرم ہوتے رہیں گے….ہدایت پاتے رہیں گے….حسین ع دلوں کو ‘نرماہٹ’..دے گئے ….گناہوں سے دور رکھنے والی…جب دل غم میں اور آنکھ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے …تو گناہ سے ..برائی سے کیسی بے رغبتی محسوس ہوتی ہے …
یہ حسین ع کی بانٹی ہوئی خیرات ہے ….جو انسان کو معراج دے سکتی ہے …سلام بر حسین ع
محسن نقوی کا شعر گونجا
اس کمسنی میں یوں صف_ اعداء سے انتقام
اصغر ع تو ابتداء سے ہوا انتہا پسند!
اور پھر…حسین ع … اپنی اور اپنے اصحاب و انصار کی اس طرح شہادت پیش کر کے…انسان کو موت سے بھی بے خوف کر گئے….
اس شہزادے کی فضیلتیں مصائب میں ہی ڈوبی ہوئی ہیں …
زمیں پہ آیا بھی اور بن چلے چلا بھی گیا
زمیں ترس گئی اصغر ع کے نقش پا کے لیئے
ہمیں نہیں معلوم کہ امام ع نے اس کی شہادت کے بعد شہزادی ام رباب ع کا سامنا کیسے کیا…..بس اپنوں سے یہی گزارش ہے ….کہ شہادت اور عام موت میں فرق کریں ….اپنوں کو کھو دینا یقیناّ بڑی مصیبت ہے …..لیکن بلآخر حب_ علی ع کے جرم میں شہید ہوجانا …حسینی تحریک کا حصّہ بن جانا ہے ….اور ہر غم میں سب سے بڑا مرہم …ہمارے لیئے مولا چھوڑ گئے …اپنا غم
اصغر ع کی ساری عمر سفر میں گزر گئی
یہ وہ علی ع ہے جسکو کبھی گھر نہیں ملا
آخر میں ایک دعا …پروردگار …شہزادی رباب ع کی دو بار اجڑنے والی گود کے صدقے …خالی گودیاں آباد کر دے ….اور بھری گودیوں کی حفاظت فرما …..محمد و آل_ محمد ص کے فرج و کشادگی میں…اور علی اصغر ع کے خون کا انتقام لینے میں تعجیل فرما ….
May 8 – 2014